Wednesday, September 14, 2011

Who will not enter Paradise?


کون جنت میں داخل نہ ہو گا؟

ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﺇﻻ ﻧﻔﺲ ﻣﺴﻠﻤﺔ. ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺸﻴﺨﺎن
مسلمان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا۔
Nobody will enter Paradise except Muslim.


ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﺇﻻ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ. ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ
     اہل ایمان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا.
Nobody will enter Paradise except true believer.


ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻗﺎﻃﻊ ﺭﺣﻢ. ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺸﻴﺨﺎﻥ
رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔
Relationships mower will not enter Paradise.


ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻗﺘﺎﺕ.. ﻭﻓﻲ ﺭﻭﺍﻳﺔ ﻧﻤﺎﻡ. ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺸﻴﺨﺎﻥ
چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔
A telltale will not enter Paradise.


 ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻣﻦ ﻻ ﻳﺄﻣﻦ ﺟﺎﺭﻩ ﺑﻮﺍﺋﻘﻪ - ﺃﻱ ﺷﺮﻭﺭﻩ- ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ
جس کے شر سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا .
The person whose neighbor is not in peace from his evil will not enter paradise. 


ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻗﻠﺒﻪ ﻣﺜﻘﺎﻝ ﺫﺭﺓ ﻣﻦ ﻛﺒﺮ. ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ
جس کے دل میں ذرے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا
A person who has arrogance just as a particle will not enter Paradise.


ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﺃﺣﺪ ﻓﻲ ﻗﻠﺒﻪ ﻣﺜﻘﺎﻝ ﺣﺒﺔ ﺧﺮﺩﻝ ﻣﻦ ﻛﺒﺮﻳﺎﺀ. ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ
جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔
A person who has arrogance just as a mustard seed will not enter Paradise.


 ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﺧﺐ - ﺃﻱ ﺍﻟﻤﺨﺎﺩﻉ - ﻭﻻ ﻣﻨﺎﻥ ﻭﻻ ﺑﺨﻴﻞ. ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﻱ
دھوکہ دینے والا،احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہ ہو گا
Fraudster, pretense person and miser will not enter Paradise.


 ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﻜﺲ - ﺇﻱ ﺍﻹﺗﺎﻭﺓ ﺃﻭ ﺍﻟﺮﺷﻮﺓ - ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺑﻮ ﺩﺍوﻭﺩ
رشوت لینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا
A briber will not enter Paradise.

ﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻣﻨﺎﻥ ﻭﻻ ﻋﺎﻕ ﻭﻻ ﻣﺪﻣﻦ ﺧﻤﺮ. ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﻨﺴﺎﺋﻲ
احسان جتانے والا،ناشکرا اور نشے کا عادی جنت میں داخل نہ ہو گا۔


Pretense, thankless and edict persons will not enter paradise

zubaida aziz

 Sep 15, 2011


Monday, September 12, 2011

phoolun ka neechay kantay ya kantun ka ooper phool


ہو سکتا ہے مندرجہ ذیل قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نا ہو، مگر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کیلئے اسے آخر تک پڑھ لیجیئے۔
ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا  پہلے والا گھر بیچنا چاہا۔
اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا  تھا۔
اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے  گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ  دے۔
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح  سے جانتا تھا۔ اشتہار کی تحریر  میں اُس نے گھر کے محل وقوع، رقبے، ڈیزائن، تعمیراتی مواد، باغیچے، سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔
اتحریر مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو  یہ اشتہار  پڑھ کر سُنایا تاکہ  اُسکی رائے لے سکے۔
اشتہار  کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا، برائے مہربانی اس اعلان کو ذرا   دوبارہ پڑھنا۔ اور اُس کے دوست نے  اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا۔
اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کو یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا کہ کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں؟
اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں۔ مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس  کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو۔  مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو، میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے۔
ایک منٹ ٹھہریئے، میرا مضمون ابھی پورا نہیں ہوا۔
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو،  یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی۔
اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے۔
ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں۔
کسی نے کہا:  ہم شکوہ کرتے ہیں کہ اللہ نے  پھولوں کے نیچے کانٹے لگا دیئے ہیں۔ ہونا یوں چاہیئے تھا کہ  ہم اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے کانٹوں کے اوپر بھی پھول اُگا دیئے ہیں۔

ایک اور نے کہا: میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا  رہا، پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو  شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا۔
اب آپ سے سوال: کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر، گاڑی، ٹیلیفون، تعلیمی سند،  نوکری وغیرہ،  وغیرہ،  وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جب  آپ  اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نا کر سکے اور تمہارے پاس تعلیم کی سند موجود ہے؟
کتنے  بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور   منصب موجود ہے؟
اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا خیال ہے ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے  اعتراف  اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ دیں:
يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجہك وعظيم سلطانك
اللہم لك الحمد حتی ترضی و لك الحمد إذا رضيت ولك الحمد بعد الرضا
shared by a friend